تیز ہو جائیں ہوائیں تو بگولا ہو جاؤں

تیز ہو جائیں ہوائیں تو بگولا ہو جاؤں
گھومتے گھومتے ہم رقبۂ صحرا ہو جاؤں


خود کلامی مری عادت نہیں مجبوری ہے
یوں نہ مصروف رہوں میں تو اکیلا ہو جاؤں


دوسرا پاؤں اٹھانے کی ضرورت نہ پڑے
اور میں فاتح ناہید و ثریا ہو جاؤں


بند آنکھوں سے نہ کر مشق تصور دن رات
کہ ہمیشہ کے لئے جان میں تیرا ہو جاؤں


یہ تری گل بدنی یہ تری کم پیرہنی
سیر چشمی سے کہیں اور نہ پیاسا ہو جاؤں


اک سرا ہے مگر آتا نہیں ہاتھوں میں زبیرؔ
جس بہانے سے میں بیگانۂ دنیا ہو جاؤں