اس نے خواب میں مجھ کو جب دو کنول دیے

اس نے خواب میں مجھ کو جب دو کنول دیے
جیون کی ندیا کے دھارے بدل دیے


ان پھولوں کی اب بھی یاد ستاتی ہے
پھول جو اپنے ہاتھوں خود ہی مسل دیے


میں نے جھیل کنارے اس کا نام لیا
جھیل نے ہنس کے نیلے موتی اگل دیے


سارے ارماں کب نکلے ہیں سینے سے
ایسے بھی ہیں سینے میں جو مچل دیے


ایسے بھی تھے لوگ جو گر کے سنبھلے کم
ہم نے ٹھوکر کھائی اور پھر سنبھل دیے


اس دکھ نے رکھا ہے مجھ کو ابد تلک
جس دکھ نے ہاں مجھ کو جام ازل دیے


اس نے ہنس کر مجھ سے میری باتیں کیں
لمحے بھر میں سارے موسم بدل دیے


اس سے نگہتؔ قائم میرا پیار رہے
جس نے یہ اشعار بہ صورت غزل دیے