اس نے جاتے ہوئے کہا بدلہ
اس نے جاتے ہوئے کہا بدلہ
خود سے لوں گا میں اب ترا بدلہ
سخت سردی میں چائے آرڈر کی
ہم نے موسم سے لے لیا بدلہ
اس دوپٹے کو چھو کے وعدہ کر
جو بھی بدلا وہ پائے گا بدلہ
میں ترے نام کر تو دوں لیکن
دل بلوچن کا چاہے گا بدلہ
ایک شاعر سے بد تمیزی کا
ہم نے شعروں میں لے لیا بدلہ
یہ مری تربیت نہیں ورنہ
میں بتاتی تمہیں ہے کیا بدلہ
میں تو چپ ہوں مگر مرے دشمن
تم سے لے گا مرا خدا بدلہ
تیری دستار بھی ہے دامن بھی
میں نے پھر بھی نہیں لیا بدلہ
میں تری بے بسی سے واقف ہوں
مجھ پہ جائز نہیں رہا بدلہ
عشق اور ہجر کی مصیبت سے
میں نے لینا تھا اور لیا بدلہ
ہاں یہ سچ ہے بدل گئی ایماںؔ
کیونکہ تم سے تھا اب روا بدلہ