اس نے حمد لکھی ہے

اس قدر حسیں چہرہ
اس قدر حسیں آنکھیں
یہ گلاب سے رخسار
پل میں تمتما اٹھیں
پل میں جگمگا اٹھیں
پنکھڑی سے نازک لب
آپ ہی بسوریں اور
آپ مسکرا اٹھیں


مجھ کو یاد آتا ہے
جب تمہاری کلکاری
گونجتی تھی کمروں میں
جب تمہاری گلکاری
پھیلتی تھی بستر پر
شب کو جب جگاتے تھے
دن کو جب تھکاتے تھے
ایسی حکمرانی پر
میری جان جلتی تھی
اور ایسے لمحے میں
تم ہنسی اڑاتے تھے


تم ہنسی اڑاتے تھے
قہقہے لگاتے تھے


کس نے یہ سکھائے سب
ناز اور ادا تم کو
تم تو سادہ کاغذ تھے
تم کو میں نے جب پایا
تم کو میں نے جب دیکھا
اور جس گھڑی چوما
کیا عجیب لمحہ تھا
تم تو آنکھیں موندے تھے


اور جب کھلیں آنکھیں
حیرتی تھا آئینہ
منہ تکا ہی کرتا تھا
بس خموش جس تس کا


پھر جو لب ہوئے گویا
کچھ یقیں نہ آتا تھا
سب کرشمہ سازی ہے
ایک اندھے کیڑے کی
یا ذرا سی محنت ہے
اس بھلی کمہارن کی
جس کے بند آوے میں
کچھ خبر نہیں کیا ہے


آگ ہے کہ پانی ہے
پھول ہے کہ چہرہ ہے


ہاں سنا یہ تھا میں نے
عرش سے فرشتہ اک
آ کے بطن‌ مادر میں
ڈھالتا ہے خد و خال
ننھے ننھے اعضا پر
نقش سے بناتا ہے
اس حسین ساعت میں
جس کو جتنی فرصت ہو
جیسی استطاعت ہو
وہ ہنر دکھاتا ہے


سو یقین ہے میرا
جس عظیم ساعت میں
مہرباں فرشتے نے
تم کو مجھ میں ڈھالا ہے
اس بلیغ ساعت میں
اس نے شاعری کی ہے
اس نے حمد لکھی ہے