اردو زدگان

بڑے بوڑھوں سے سنا ہے  کہ اردو ایک لشکری زبان ہے۔   آج کل کے نوجوانوں کا اس سے آمنا سامنا  دیکھیں تو اس کا مصمم یقین بھی  ہونے لگتا ہے۔ ان کی آہ وزاری بتا رہی ہوتی ہے کہ پورا لشکر ان پر چڑھ دوڑا ہے۔  بھئی ان کی تکلیف دیکھتے ہوئے مجھے تو آج کل ایک خوف بھی لاحق ہے! وہ یہ کہ کہیں خبریں ہی نہ آنے لگیں کہ اردو کے دقیق الفاظ حلق میں پھنسنے سے فلاں  نوجوان ہالاک۔ دس بارہ کو تشویش ناک حالت میں ہسپتال لایا گیا۔ ہسپتال میں ایمرجنسی الرٹ۔ ڈاکٹر جاں فشانی سے  متاثرین کے حلق میں پھنسے الفاظ نکالنے میں مصروف۔  الفاظ کی نوعیت سمجھنے میں شدید دشواری۔    دو چار الفاظ کو نکال کر جب ان کا ڈی این اے ٹسٹ کیا گیا تو  معلوم پڑا کہ وہ اقبال کی بانگ درا و بال جبریل کی نظموں سے ملتے ہیں۔ وہی اقبال جسے ہمارے ہاں قومی شاعر گمان کیا جاتا  ہے۔

          خیر چھوڑیں!

کبھی کبھار سوچتا ہوں کہ ابھی تو  بڑے بوڑھے استاد باقی ہیں جو دقیق الفاظ  کی شناخت کر لیا  کرتے ہیں۔   پر کچھ عرصہ بعد آج کل کے نو جوان کیا کریں گے۔ ان کو تو استاد بھی وہ میسر ہیں جو اردو کچھ یوں پڑھاتے ہیں۔

 Students! Today I am going to teach you Urdu

          بھئی کچھ بھی ہے۔ ایسے استاد ویسے ہوتے بڑے کوول ہیں!   بالکل سٹھیائے ہوئے نہیں ہوتے۔ چِل ہو کر پڑھاتے ہیں۔   باقی اردو دان بابوں کو دیکھو۔ نہ خود چین سے رہتے ہیں، نہ ہی چین سے رہنے دیتے ہیں۔  ویسے قصور تو ان کا بھی نہیں ہے۔ پرانے ادیبوں، شاعروں، مصنفوں نے لکھا ہی کچھ ایسا ہے۔ اتنا مشکل! اللہ کی پناہ! بس ان کو پڑھ پڑھ کر ان کا دماغ سٹھیا جاتا ہے۔  میں تو کہتا ہوں کڑی سزا  ہونی چاہیے تھی ان پرانے ادیبوں، شاعروں کو۔ آخر کیا مسئلہ تھا ان کو ایسے لکھتے   ہوئے: "ڈبے میں ڈبہ، ڈبے میں آلو،    میں  اردو سے اردو مجھ سے چالو۔"

          میرے جیسوں کا تو خیال ہے کہ    ان پرانے شعرا و ادیبوں کو سزا ہونی چاہیے، جانے  یہ کون ہے جو انہیں نصاب میں گھسا دیتا ہے۔ سارے نمبر مارے جاتے ہیں ان کی وجہ سے۔ نہ انہیں میری سمجھ آتی ہے اور نہ مجھے ان کی۔  بھئی پسند تمہیں ہیں،  خراج تحسین تم پیش کرنا چاہتے ہو، اپنی یادوں میں زندہ تم رکھنا چاہتے ہو۔ سزا مجھ جیسوں  کو  کیوں دیتے ہو۔ یہ تو سرا سر ہمارے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ آئین کی پامالی ہے۔ آئین میں لکھا ہے کہ ہر کسی کو آزادانہ، اپنی مرضی سے رہنے کا حق ہے۔ بھئی اس رہنے میں  پڑھنا بھی تو شامل ہے۔  تو  پڑھاؤ ہمیں وہ جو ہم پڑھنا چاہتے ہیں۔ اور بھلا ہم کیا پڑھنا چاہتے ہیں؟ ہم کس کو خراج تحسین پیش کرنا چاہتے ہیں؟ ہم کسے یادوں میں زندہ رکھنا چاہتے ہیں؟ ہائے  ہائے، کیا بتائیں؟؟؟ چھوڑیں یار، مضمون کہیں امی ابا کے ہاتھ لگ گیا تو پھر! وہ ایک الگ استبدادی قوت نافذہ  ہم پر مسلط رہتی ہے۔

بھئی واپس آئیں یار، کدھر نکل   گئے؟  اردو پڑھنے، بولنے اور لکھنے والوں کی زبوں حالی  پر ماتم کر رہے تھے۔   ماتم کر رہے تھے!!! بھلا وہ کیوں؟ اتنا تو اردو کو درجہ دیا جاتا ہے۔ قومی زبان بنا رکھا ہے۔  قیمتی سمجھتے ہیں اسے۔ اسی لیے اس کا استعمال کم سے کم کرتے جا رہے ہیں۔ کہیں ختم ہوگئی تو پھر! نایاب چیز ہے، ملے گی بھی نہیں۔     اوپر سے آپ کو پتہ ہے، چیز زیادہ چلے تو پٹ جانے کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔  طرح  طرح کے لوگوں کی نظروں میں آتی ہے۔ جانے کون کیسی  نظر  لگا دے؟  اسی لیے اردو کو سنبھال کر ہی رکھو۔ قومی زبان ہے۔ آدھا ملک گنوایا ہے اس کے پیچھے۔

          ارے یار! کیا بات کردی میں  نے۔  واقعی  یہ تو کبھی میں نے خود بھی نہیں  سوچی تھی۔ آخر منفی ذہنیت کا مالک ہوں، ایسی مثبت بات میرے ذہن میں کیسے آ  سکتی تھی۔ اب تو یہ بھی سمجھ میں آنے لگا ہے کہ  اردو کو کم سے کم استعمال کرکے نجی تعلیمی ادارے کیا قومی فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔   ان کو تو بھئی ستارہ امتیاز ملنا  چاہیے۔ یہ جو  کر رہے ہیں، ان کا تو احسان کسی طرح اتارا ہی نہیں جا سکتا۔ یہی ادارے تو ہوں گے جو اگلی دو تین نسلوں تک اردو کا آثار قدیمہ والوں سے بہترین ریٹ لگوا کر دیں گے۔ آپ ان کی اردو کو نایاب بنانے میں حصہ داری سے پہلو تہی کسی طرح نہیں کر سکتے۔

          مجھے تو یقین ہے کہ کچھ عرصے تک ان کے طالب علم قومی  اسمبلی سے ایک بل بھی منظور کروائیں گے۔  "بل برائے  نایاب اردو"۔ اس بل میں قانون بنانے کی تجویز ہوگی کہ  وسیع تر قومی مفاد میں اردو کو انگریزی میں پڑھانے کی اجازت ہو۔ واہ یار تجویز تو بڑی زبر دست ہے۔ اس سے اردو بھی نایاب رہے گی اور قومی  وقار بھی مجروح نہیں ہوگا۔  آخر اردو کے استاد کو پینٹ شرٹ پہنوائی جا سکتی ہے، اردو کو انگریزی رسم الخط میں لکھا جا سکتا ہے، تو قوم کے مفاد کا تحفظ کرتے ہوئے اردو کو انگریزی میں کیوں نہیں پڑھا جا سکتا۔ بالکل ایسا کیا جا سکتا ہے۔ آخر قوم کا وسیع تر مفاد ہے۔ اور آپ کو تو پتہ ہے، قوم کا جہاں وسیع تر مفاد ہو وہ ہم کو کرنا ہی ہوتا ہے۔

متعلقہ عنوانات