عمر بھر بہ آسانی بار غم اٹھانے سے
عمر بھر بہ آسانی بار غم اٹھانے سے
ان پہ اعتبار آیا خود کو آزمانے سے
اس ہجوم میں تجھ کو کیا خبر ہوئی ہوگی
کس کو کیا تعلق تھا تیرے آستانے سے
یوں سلام آنے پر اک خلش سی ہوتی ہے
کاش ہم کو بلواتے وہ کسی بہانے سے
ہاں تو ان کی خاطر سے کیوں تراوشیں کرتے
جس طرح وہاں گزری کہہ گئے زمانے سے
جب بھی بزم عالم میں کوئی فتنہ اٹھتا ہے
یا تمہاری محفل سے یا غریب خانے سے
سلسلہ یہی ہوگا رخ بدلتے جائیں گے
میں تری حقیقت سے تو مرے فسانے سے