تو وہ نکتہ ہے جسے دھیان میں رکھا گیا ہے

تو وہ نکتہ ہے جسے دھیان میں رکھا گیا ہے
غیر ممکن سہی امکان میں رکھا گیا ہے


حیرتیں اپنی ابھی ختم نہ ہونے دینا
راز پوشیدہ اک اعلان میں رکھا گیا ہے


سب شناسا ہیں ترے پھر بھی تو تیرا چہرہ
گم شدہ لوگوں کی پہچان میں رکھا گیا ہے


طے شدہ ہے یہاں انجام ازل سے سب کا
فیصلہ وقت کے جزدان میں رکھا گیا ہے


اس قدر بوجھ کہ شل ہو گئے بازو نصرتؔ
جانے کیا کیا مرے سامان میں رکھا گیا ہے