وہ ساتھ آیا تو میری اڑان بیٹھ گئی
وہ ساتھ آیا تو میری اڑان بیٹھ گئی
نہ جانے کیا ہوا مجھ میں تھکان بیٹھ گئی
پھر اس کے بعد پرندے زمیں پہ گرنے لگے
کسی کی آہ سر آسمان بیٹھ گئی
قریب تھا کہ تعلق بحال ہو جاتا
عجب خموشی مگر درمیان بیٹھ گئی
حویلی چھوڑ کے سب لوگ چل دئے لیکن
ہر ایک حجرے میں اک داستان بیٹھ گئی
بلندیوں پہ پہنچ کر میں خوش بہت تھی مگر
زمیں کی سمت جو دیکھا تو جان بیٹھ گئی
زباں درازوں سے نصرتؔ کہاں تلک لڑتی
سو دل پہ صبر کی رکھ کر چٹان بیٹھ گئی