اداسی کا پہلا گھاؤ

تمہیں کب ملا
پہلی بار جب وہ تم کو اپنے پنجوں سے
کھرچ رہی تھی
کیا تم نے ہتھیار ڈال دئے تھے
یا اپنے آنسوؤں میں گھول کر
اس پانی کو آسمان پر اچھال دیا تھا
یہ راز کی بات ہے
محبت کونے کھدرے میں پڑی
سوکھے نوالے چبانے میں لگی ہے
اس کے پاس لعاب بھی نہیں ہے
نوالے چبانے کی آواز کتنے سال تمہاری نیندیں
خراب کرتی رہی
آخر یہ وقت آ گیا
کہ اداسی کے گھاؤ نے
پے در پے تمہیں الٹیاں کرنے پر مجبور کر دیا
الٹیاں جو وحشتوں کی کھڑاؤں پہنے
تمہاری چوکھٹ سے باہر جاتی لوگوں کو نظر آئیں