اداسی اک اسیری ہے اداسی سے گھرا ہوں میں

اداسی اک اسیری ہے اداسی سے گھرا ہوں میں
اداسی ہی اداسی ہے اداسی سے گھرا ہوں میں


اداسی اور اداسی اور اداسی اور اداسی بس
اداسی مجھ پہ حاوی ہے اداسی سے گھرا ہوں میں


یقیں تیرا تھا بس مجھ کو خدارا کیوں کروں میں اب
تری ہستی خیالی ہے اداسی سے گھرا ہوں میں


بھٹکتا در بہ در رہتا ہوں میں وحشت کے سائے میں
مری مردہ جوانی ہے اداسی سے گھرا ہوں میں


پرستش کر رہا ہوں آج کل میں بس اداسی کی
اداسی جاودانی ہے اداسی سے گھرا ہوں میں


ہلاک عشق ہوں یاروں مجھے مارا محبت نے
مری غمگیں کہانی ہے اداسی سے گھرا ہوں میں


تعلق ہے سیاست کا یہاں ہر بات سے حامدؔ
اداسی بھی سیاسی ہے اداسی سے گھرا ہوں میں