لئے پھرتا ہے خوں آلود کب تک پیرہن آخر
لئے پھرتا ہے خوں آلود کب تک پیرہن آخر
ملے گا بعد مرنے کے سفیدہ اک کفن آخر
نہ آئے مجھ سے کیوں کر خوشبو مشک ہرن آخر
چھوا تھا صندلی ہاتھوں سے اس نے یہ بدن آخر
مچا اک رن ہے دنیا میں نہتھا شخص ہوں میں یاں
جیوں کیسے رہوں کب تک یہاں میں خیمہ زن آخر
اڑا ہے فاختہ جب سے ڈیوڑھی سے مرے گھر کی
پلٹ کے آ گئی واپس مرے گھر کی گھٹن آخر
پھپھک کر رو رہے یوں یہ تم کیوں مر نہیں جاتے
نہیں میں مر نہیں سکتا نہیں ہوں کوہ کن آخر
کسی بھی آدمی کو پھینک دو گر خشک کنوئیں میں
نکل سکتا نہیں ہے وہ سوائے معجزن آخر
کہے جاتی ہے اودھو سے یہ رو رو کر کے ہر گوپی
بتا اب کب ستائیں گے مجھے مرے کشن آخر
مرے سینے میں اک لڑکی کہیں پر دفن ہے یارو
بھلاؤں میں اسے کیسے کروں کتنے جتن آخر
کسی کو چاہ نہیں سکتا ہوں میں اس کے سوا حامدؔ
یہ جادو منتروں کا ہے وہ ٹھہری برہنہ آخر