اڑا کر امن کے پرچم ستم والوں کی تدبیریں

اڑا کر امن کے پرچم ستم والوں کی تدبیریں
خرد کے پاؤں میں ڈالی گئیں سونے کی زنجیریں


جہان شور و شر کا نام ہی ہے گرچہ آزادی
قفس ہی اس سے اچھا تھا بہت اچھی تھیں زنجیریں


سکون و امن کے خوگر بنے ہیں خار راہوں کے
اندھیرے رقص فرما ہیں اجالوں کی ہیں تاثیریں


ثمر یہ ٹوٹ جائے گا خرد کے پاسبانوں کا
جنوں کے عزم کی جس دم مچل اٹھیں گی تصویریں


نظام زندگی ڈر ہے کہیں برہم نہ ہو جائے
یہی ہے گرچہ اے جانبازؔ آزادی کی تاثیریں