رستے رہتے ہیں زخم سینے میں

رستے رہتے ہیں زخم سینے میں
لطف آنے لگا ہے جینے میں


دل پگھلتا ہے اشک ڈھلتے ہیں
آگ سی لگ گئی ہے سینے میں


تیری یادوں کی دھوپ ہوتی ہے
ڈوب جاتے ہیں ہم پسینے میں


اشک بہتے ہیں یاد میں تیری
عکس تیرا ہے ہر نگینے میں


لوٹ لیتے جو ہوش میں رہتے
مال تھا دفن جو دفینے میں


اب یہ عالم ہے حضرت جانبازؔ
ہم نہ مرنے میں ہیں نہ جینے میں