ابل پڑا یک بیک سمندر تو میں نے دیکھا

ابل پڑا یک بیک سمندر تو میں نے دیکھا
کھلا جو راز سکوت لب پر تو میں نے دیکھا


اتر گیا رنگ روئے منظر تو میں نے دیکھا
ہٹی نگاہ بہار یکسر تو میں نے دیکھا


نہ جانے کب سے وہ اندر اندر سلگ رہا تھا
ملا جو دیوار میں مجھے در تو میں نے دیکھا


تمام گرد و غبار دل سے نکل چکا تھا
برس چکا ابر اشک کھل کر تو میں نے دیکھا


نشان قدموں کے راستے میں چمک رہے تھے
گزر گیا وہ نظر بچا کر تو میں نے دیکھا


ملا کے مٹی میں رکھ دی اس نے عبادت اس کی
جو میرے آگے نہ خم کیا سر تو میں نے دیکھا