تو میخانے میں کوئی حیرت دکھا
تو میخانے میں کوئی حیرت دکھا
مجھے ساقیا اب نہ جنت دکھا
میں ترسا ہوں جس کے لئے عمر بھر
اجل کو بھی اب تو یہ نوبت دکھا
مجھے بے خودی کی نہیں آرزو
کسی جام میں کوئی راحت دکھا
یہاں کے نظاروں سے جی بھر گیا
نئے جلوؤں کی کوئی صورت دکھا
کوئی اس سے کہہ دے یہ ساحلؔ کی بات
دعا میں ذرا تو کرامت دکھا