دعائیں کیجیے غنچوں کے مسکرانے کی
دعائیں کیجیے غنچوں کے مسکرانے کی
ابھی امید ہے باقی بہار آنے کی
میں جن کا دل میں تصور سجائے رکھتا ہوں
کوئی تو راہ ملے ان تک آنے جانے کی
تلاش خود ہی میں کر لوں گا آپ کے گھر کو
نہ دوں گا آپ کو زحمت میں گھر پہ آنے کی
بغیر اس کے مجھے نیند کیسے آئے گی
دعائیں دیتے ہو تم کیوں مجھے سلانے کی
وہ نغمے سنگ کو بھی کر دیں موم جو ساحلؔ
ہمیں تو آج بھی عادت ہے گنگنانے کی