اذیت بھری کب مری زندگی ہے
اذیت بھری کب مری زندگی ہے
اسی زندگی میں ہی تابندگی ہے
کئی بار اس بات کو پرکھا میں نے
تکبر میں پوشیدہ شرمندگی ہے
مصیبت میں غیروں کے آئے ہیں جو کام
عبادت وہی ہے وہی بندگی ہے
نہیں ہے کہیں ایک دیپک بھی روشن
کہیں روشنی کی ہی رخشندگی ہے
ذرا مانگنے کا سلیقہ تو جانو
خزانے میں اس کے نہیں کچھ کمی ہے
یہ اک راز ہے کیا کسی کو بتاؤں
مری زندگانی تو فرخندگی ہے
ہر اک شعر لکھتا ہے خون جگر سے
یہی تیرے ساحلؔ کی دیوانگی ہے