تمہارے غم سے توبہ کر رہا ہوں

تمہارے غم سے توبہ کر رہا ہوں
تعجب ہے میں ایسا کر رہا ہوں


ہے اپنے ہاتھ میں اپنا گریباں
نہ جانے کس سے جھگڑا کر رہا ہوں


بہت سے بند تالے کھل رہے ہیں
ترے سب خط اکٹھا کر رہا ہوں


کوئی تتلی نشانے پر نہیں ہے
میں بس رنگوں کا پیچھا کر رہا ہوں


میں رسماً کہہ رہا ہوں ''پھر ملیں گے''
یہ مت سمجھو کہ وعدا کر رہا ہوں


مرے احباب سارے شہر میں ہیں
میں اپنے گاؤں میں کیا کر رہا ہوں


مری ہر اک غزل اصلی ہے صاحب
کئی برسوں سے دھندہ کر رہا ہوں