تمہارے آنے سے منظر کا یوں بدل جانا
تمہارے آنے سے منظر کا یوں بدل جانا
نئے قرینے میں ہر شے کا خود ہی ڈھل جانا
تکلفات سب اپنی جگہ مگر پھر بھی
جو دل کو توڑ کے جانا ہی ہے تو کل جانا
جو بات میں کسی صورت بھی کہہ نہ سکتا تھا
لبوں سے میرے اسی بات کا پھسل جانا
چمکتے دن میں ٹھہرنا نہ دل کسی شے پر
اندھیری رات میں جگنو سے جی بہل جانا
نکلنا گھر سے نہ باہر کسی بھی قیمت پر
مگر جو آ پڑے خود پر تو سر کے بل جانا
ذرا سا پا کے اشارہ لبوں کی جنبش سے
بلا سبب دل بیتاب کا مچل جانا
نہ جانے کیوں تجھے سورج کی فکر ہے تنہاؔ
خود اپنی آگ میں عشرت ہے اس کی جل جانا