کبھی دوسروں سے ڈرا دیا کبھی اپنے آپ سے ڈر گیا
کبھی دوسروں سے ڈرا دیا کبھی اپنے آپ سے ڈر گیا
مرا سایہ ساتھ رہا مرے میں جہاں گیا میں جدھر گیا
مرے دل میں کتنے سراب ہیں مری روح کا جو عذاب ہے
انہیں دیکھ کر میں لرز اٹھا انہیں سوچ کر میں بکھر گیا
مری زیست کی جو اساس ہے مری سانس محض قیاس ہے
مجھے پھر بھی جینے کی آس ہے میں کہ ڈوب ڈوب ابھر گیا
نہ میں پھول ہوں نہ میں خار ہوں نہ نشہ ہوں میں نہ خمار ہوں
میں تو ایک مشت غبار ہوں جو ہوا چلی تو بکھر گیا
مرا نام یوں تو ہے زندگی مجھے موت سے ملی روشنی
مری رمز کو وہی پا سکا جو بھی خود سے بچ کے گزر گیا
نہ میں دھوپ ہوں نہ میں داغ ہوں نہ مزار کا میں چراغ ہوں
میں تو زندگی کا سراغ ہوں جسے تو خلاؤں میں بھر گیا
میں خبر ہوں کوئی کہ خواب ہوں ترے ہونے کا کہ جواب ہوں
میں وہ دشت دشت سراب ہوں جو جنم کے ساتھ ہی مر گیا