اس بے بصارتی میں بھی یہ گلفشانیاں

اس بے بصارتی میں بھی یہ گلفشانیاں
کیا کھل گئیں دماغ کی اندر کو کھڑکیاں


ہوتے ہیں مانگنے کے بھی آداب کچھ میاں
خالی پڑی ہیں عقل سے کتنی ہی بستیاں


قفل غم حیات نہ ٹوٹا نہ در کھلا
ہم نے لگائیں لاکھ محبت کی چابیاں


احساس رنگ بھرتا ہے جب سانحات میں
ہاتھ آئی ہیں تو صرف تعصب کی تتلیاں


ہم کو تو خار زاروں سے بھی کد نہیں کوئی
پھولوں کی وادیاں تو ہیں پھولوں کی وادیاں


سورج جو آیا سر پہ تو سائے سمٹ گئے
جاگی خوشی تو چھٹ گئیں خود ہی اداسیاں


کچھ بات ہے کہ ضعف بصارت کے بعد بھی
تنہاؔ کو سوجھ جاتی ہیں اوروں پہ پھبتیاں