تم سے اک دن کہیں ملیں گے ہم
تم سے اک دن کہیں ملیں گے ہم
خرچ خود کو تبھی کریں گے ہم
عشق! تجھ کو خبر بھی ہے؟ اب کے
تیرے ساحل سے جا لگیں گے ہم
کس نے رستے میں چاند رکھا ہے
اس سے ٹکرا کے گر پڑیں گے ہم
آسمانوں میں گھر نہیں ہوتے
مر گئے تو کہاں رہیں گے ہم
دھوپ نکلی ہے تیری باتوں کی
آج چھت پر پڑے رہیں گے ہم
جو بھی کہنا ہے اس کو کہنا ہے
اس کے کہنے پہ کیا کہیں گے ہم
روک لیں گے مجھے ترے آنسو
ایسے پانی پہ کیا چلیں گے ہم
وہ سنے گی جو سننا چاہے گی
جو بھی کہنا ہے وہ کہیں گے ہم