تم ہو یا چھیڑتی ہے یاد سحر کوئی تو ہے

تم ہو یا چھیڑتی ہے یاد سحر کوئی تو ہے
کھٹکھٹاتا ہے جو یہ خواب کا در کوئی تو ہے


دل پہ پڑتی ہوئی دزدیدہ نظر کوئی تو ہے
جس طرف دیکھ رہا ہوں میں ادھر کوئی تو ہے


ایسے ناداں نہیں راتوں میں بھٹکنے والے
جاگتی آنکھوں میں خورشید سحر کوئی تو ہے


خود بخود ہاتھ گریباں کی طرف اٹھتے ہیں
سرسراتی سی ہواؤں میں خبر کوئی تو ہے


کس کا منہ دیکھ رہی ہے سفر آمادہ حیات
سوئے مقتل ہی سہی راہ گزر کوئی تو ہے


تو مجھے دیکھ مرے پاؤں کے چھالوں پہ نہ جا
زندگی تیرے لیے خاک بسر کوئی تو ہے


دن کٹا سارا خرابوں میں بھٹکتے اخترؔ
شام ہوتی ہے چلو خیر سے گھر کوئی تو ہے