تم اور میں

تم وہ بادل ہو کہ آکاش پہ جب جھوم کے آئے
چلے پروائی بھی موسم بھی سہانا ہو جائے
کبھی گھنگھور گھٹا سرمئی اودی کالی
کبھی اک روئی کا گالا کہ بس اڑتا جائے
کبھی بجلی کی کڑک بن کے جلائے خرمن
گڑگڑاتا کہیں بن برسے ہی گزرا جائے
پانی تھم تھم کے پڑے رنگ دھنک کے بکھریں
ہجر کی شام ڈھلے وصل کی رات آ جائے


میں وہ دھرتی کہ جب آکاش پہ بادل چھائے
جھوم جھوم سبزہ درخت پھول سواگت کو بڑھیں
سوندھی سوندھی سی مہک مٹی کے انگ انگ سے اٹھے
ہلکی پھوار کے چھینٹے جو بدن سے کھیلیں
جب گھٹا ٹوٹ کے برسے تو کرے جل تھل ایک
دھرتی کی پیاس بجھے من کی لگی شانت کریں
کہیں جھرنے کہیں مینڈک کہیں چڑیاں کہیں مور
زندگی رقص کرے رنگ بہاروں کے کھلیں
تم تو بادل ہو اگر آج یہاں کل ہو وہاں
ہوا کے دوش پہ انجانی فضاؤں میں رواں
کہیں موسم ہو مناسب تو برس کر کھل جاؤ
کہیں بس دھوپ کی تیزی میں کمی کرتے جاؤ
میں وہ دھرتی کہ بہاروں کے گزر جانے پر
ہجر کی دھوپ کڑی سہ کے جو ٹکڑے ہو جائے
یادیں گزری ہوئی برکھا کی لگائے دل سے
ملنے کی آس میں آکاش کو تکتی رہ جائے