پھر ملنا کیا نا ملنا کیا

برسوں کے بعد ملیں ہم تم اور بیتی گھڑیاں خواب لگیں
نظروں سے ملیں نظریں لیکن دروازے دلوں کے بند رہیں
بانہوں کو گلے میں ڈال کے بھی ملنے کی تڑپ باقی ہی رہے
بے تابی ادھر بے مہری ادھر جب پیار کی باتیں بار لگیں
آنکھوں سے لگے ساون کی جھڑی اور دل کی لگی کچھ اور بڑھے
جب سینے سے لگ کر بھی ان کے روداد جدائی کہہ نہ سکیں
جب ہاتھ میں ہاتھ دئے ان کے دریا کے کنارے چلتے رہیں
اور فاصلے بڑھتے بڑھتے جب ندی کے کنارے بن جائیں
جب ماضی گزری راہ بنے بیتے لمحے بوجھل یادیں
جب الفت ہاتھ ملے روئے اور شکوے گلے بھی خار لگیں
خوابوں سے لدی کومل کلیاں جب مہکے بنا مرجھا جائیں
رت چاہت کی جب بیت چکے پھر ملنا کیا نا ملنا کیا