درد و کیف کا سنگم دیر تک نہیں رہتا

درد و کیف کا سنگم دیر تک نہیں رہتا
یہ سرور کا عالم دیر تک نہیں رہتا


فصل گل ہے حاصل گر زندگی کے گلشن کی
کیوں بہار کا موسم دیر تک نہیں رہتا


رنگ اس جہاں کے سب نقش آب ہیں گویا
کوئی رت کوئی موسم دیر تک نہیں رہتا


ہے جو شاخ نازک پر آندھیوں کے رستے میں
ایسا آشیاں قائم دیر تک نہیں رہتا


بے بسی میں ڈھل جائے جب بھی رنگ مایوسی
انتظار کا عالم دیر تک نہیں رہتا


درد کی کسک دل سے مدتوں نہیں جاتی
آنسوؤں سے دامن نم دیر تک نہیں رہتا