Murtaza Barlas

مرتضیٰ برلاس

  • 1934

مرتضیٰ برلاس کے تمام مواد

39 غزل (Ghazal)

    اس مسیحائی کے صدقے کام جاں تک آ گئی

    اس مسیحائی کے صدقے کام جاں تک آ گئی تجربے کرتے ہوئے نوبت یہاں تک آ گئی اب تو گہواروں پہ خادم رکھ لیے ماں باپ نے مامتا تخمینۂ سود و زیاں تک آ گئی تو نے کوشش تو یہی کہ تھی کہ گھر میرا جلے آگ جب بھڑکی تو پھر تیرے مکاں تک آ گئی اس نظام آب و گل میں زہر پھیلانے کے بعد پھر وہی شورش زمیں ...

    مزید پڑھیے

    ہم ضمیروں سے جو بھٹکائے وہ اعزاز نہ دے

    ہم ضمیروں سے جو بھٹکائے وہ اعزاز نہ دے شوق سے تو مجھے اب قوت پرداز نہ دے دائرے ٹوٹ نہ جائیں مرے خوابوں کے کہیں سو گیا ہوں مجھے اب کوئی بھی آواز نہ دے تجھ کو دینا ہے اگر تلخی انجام کا زہر دینے والے مجھے خوش فہمیٔ آغاز نہ دے راز داروں کا کہا مان کے یہ حال ہوا مشورہ کوئی مجھے اب مرا ...

    مزید پڑھیے

    بدن میں جاگ اٹھی کپکپاہٹیں کیسی

    بدن میں جاگ اٹھی کپکپاہٹیں کیسی میں سن رہا ہوں یہ فردا کی آہٹیں کیسی مکیں کو یاد ہزیمت کی داستاں ہے مگر تو اس کے گھر میں ہیں یہ جگمگاہٹیں کیسی شکست دل کا جو احساس اب بھی زندہ ہے تو پھر یہ ہونٹوں پہ ہیں مسکراہٹیں کیسی وجود ٹوٹ رہا ہو تو کیسی نغمہ گری جو دل سکوں سے نہ ہو ...

    مزید پڑھیے

    چہرے پہ میرے رنگ پریشانیوں کا ہے

    چہرے پہ میرے رنگ پریشانیوں کا ہے دریا میں سارا زور ہی طغیانیوں کا ہے خود رہبران قوم ہیں آلائشوں میں گم ہم سے مگر مطالبہ قربانیوں کا ہے احباب میرے اس طرح مجھ پر ہیں طعنہ زن جیسے خلوص نام ہی نادانیوں کا ہے ساحل جو کٹ کے گرتے ہیں دریا کی گود میں کیا یہ قصور بہتے ہوئے پانیوں کا ...

    مزید پڑھیے

    اک یاد تھی کسی کی جو بادل بنی رہی

    اک یاد تھی کسی کی جو بادل بنی رہی صحرا نصیب کے لیے چھاؤں گھنی رہی وہ نقش ہوں جو بن کے بھی اب تک نہ بن سکا وہ بات ہوں جو کہہ کے بھی نا گفتنی رہی پتھر کا بت، سمجھ کہ یہ کس شے کو چھو لیا برسوں تمام جسم میں اک سنسنی رہی اس جان گل کو دیکھتے کیسے کہ آج تک اک رنگ و بو کی سامنے چادر تنی ...

    مزید پڑھیے

تمام