طلوع عشق کے منظر تھمے تھے

طلوع عشق کے منظر تھمے تھے
کہیں کاسے کہیں پر سر تھمے تھے


نظر دہشت زدہ یوں ہی نہیں تھی
خیالوں میں بہت سے ڈر تھمے تھے


برسنا تھا جنہیں آنکھوں سے میری
وہی بادل کہیں اوپر تھمے تھے


دل مضطر تڑپنے لگ گیا تھا
عجب طوفان سانسوں پر تھمے تھے


تمہاری راہ کے پتھر تھے جتنے
ہمارے پاؤں میں آ کر تھمے تھے


کئی آسیب یادوں کے دیاؔ جی
ہماری روح کے اندر تھمے تھے