تجھے گر پاس غیرت اے ستم گر ہو نہیں سکتا
تجھے گر پاس غیرت اے ستم گر ہو نہیں سکتا
تو دل بھی شاکیٔ تعزیر خنجر ہو نہیں سکتا
میں ترک بادہ نوشی کے لئے مدت سے کوشاں ہوں
مگر یہ کام پورا قبل محشر ہو نہیں سکتا
بلا کر بات پوچھیں روبرو اپنے تو رو دینا
دلائل کا اثر کچھ اس سے بہتر ہو نہیں سکتا
شکایت تجھ سے کیا ساقی کہ ہے تاخیر کا عادی
ستم دنیا میں لیکن اس سے بڑھ کر ہو نہیں سکتا
سکون و ضبط کی تو ہم نشیں میں انتہا کر دوں
مگر مجھ کو وہ یوسف اب میسر ہو نہیں سکتا
پلائے جا کہ میں مدہوش ہو جاؤں تو تو مانے
کہ مے نوشی میں کوئی مجھ سے بڑھ کر ہو نہیں سکتا
سخن سازی میں لازم ہے کمال علم و فن ہونا
محض تک بندیوں سے کوئی شاعر ہو نہیں سکتا
ہنر مندوں کی ہر مجلس سے یہ آواز آتی ہے
کہ ناداں کا کوئی دنیا میں رہبرؔ ہو نہیں سکتا