زخم کیا ابھرے ہمارے دل میں ان کے تیر کے
زخم کیا ابھرے ہمارے دل میں ان کے تیر کے
گل کھلے گویا کہ خواب عشق کی تعبیر کے
پاسباں نے غم دیا اور ہمدموں نے جان لی
آج قائل ہو گئے ہم گردش تقدیر کے
خود لکھی ہے خون دل سے عشق کی ہر داستاں
زیر احساں میں نہیں ہوں کاتب تقدیر کے
رکھ دیا ہے لکھنے والے نے کلیجہ چیر کر
ہے مصنف منکشف ہر لفظ میں تحریر کے
میں نے جب مایوس ہو کر ہونٹ اپنے سی لئے
پھر ہو کیوں مشتاق اتنے تم میری تقریر کے
پھر وہی سودا وہی وحشت وہی طرز جنوں
ہیں نشاں موجود سارے عشق کی تاثیر کے
جستجوئے دید میں پھرتے ہیں سر گردہ مدام
ہر قدم پر ہیں مقابل آپ کی تصویر کے
بے کسوں معصوم کی مشکل کشائی کیجئے
چھوٹنا چکر سے ہے گر آسمان پیر کے
خدمت ہر مستحق وہ کار گر تدبیر ہے
قفل کھل جاتے ہیں جس سے بندش تقدیر کے
دیکھتے ہیں دوسروں کی آنکھ کے تل میں بھی عیب
بے خبر ہیں لیکن اپنی آنکھ کے شہتیر کے
تم فرائض منصبی انجام دو رہبرؔ فقط
مت پڑو جھگڑے میں تم تقدیر و تدبیر کے