متاع خون جگر اشک کو پلا بیٹھے
متاع خون جگر اشک کو پلا بیٹھے
اثاثہ ہاتھ میں جتنا تھا سب اٹھا بیٹھے
کسی حسین سے دل کو جو ہم لگا بیٹھے
تو اپنی موت کو خود آپ ہی بلا بیٹھے
بڑا گناہ کیا جو قبول کی دعوت
وہ دل کو لے اڑے اور دور جا بیٹھے
اسے بلانے بٹھانے کا ذکر ہی کیا ہے
جو از خود آئے نگاہوں میں اور سما بیٹھے
ہمارے حال پہ اتنا تو وہ کرم کر دے
کہ دل نہ دے نہ سہی کچھ قریب آ بیٹھے
نفع سمجھ کے بسے تھے تمہارے کوچے میں
مگر جو گانٹھ میں تھا وہ بھی سب لٹا بیٹھے
ہم ان بزرگ کے پیرو ہیں ایک ادنیٰ سے
نظر کی روشنی جو طور پر گنوا بیٹھے
ہر ایک بزم میں چرچا ہے ہر زباں پر ذکر
یہ کس سے ماجرۂ عشق ہم سنا بیٹھے
وہ دست فیض تو رہبرؔ نہال کر دیتا
امید آپ کسی اور سے لگا بیٹھے