تری نگاہ سے جب بھی مری نگاہ ملی

تری نگاہ سے جب بھی مری نگاہ ملی
مجھے تو گردش ایام سے پناہ ملی


ہمیں تو تیرے تبسم پہ جان دینی ہے
کلی کلی کو جو دیکھا تیری گواہ ملی


رہ وفا میں ترے غم کی بخششیں کیا خوب
دلوں کو سوز ملا ہے لبوں کو آہ ملی


مجھے تو صرف یہ کہنا ہے اپنے دل کے لئے
بھٹکنے والی وفا کو قیام گاہ ملی


نہ جانے جائے کہاں لے کے دل کی بیتابی
قدم قدم پہ مجھے یوں تو جلوہ گاہ ملی


عجیب حال میں رہتے ہیں فن کے مارے بھی
زباں امیر ملی زندگی تباہ ملی