دیدۂ شوق لیے جذبۂ بے تاب لئے

دیدۂ شوق لیے جذبۂ بے تاب لئے
آج تو حسن بھی ہے عشق کے آداب لئے


چشم مخمور لئے کاکل شب تاب لئے
رشک ایماں بھی ہیں وہ کفر کے اسباب لئے


ان کے ابرو پہ ہیں بل اور تبسم لب پر
میرے افسانۂ ہستی کا نیا باب لئے


اب تو یہ حال ہے دیکھے ہوئے مدت گزری
کوئی گزرا ہی نہیں خندۂ شاداب لئے


خواب کیا چیز ہے اب خواب کی تعبیر سنو
ورنہ ہر دیدۂ بے خواب ہے اک خواب لئے


راہ میں اب کوئی طوفاں کوئی سیلاب آئے
زندگی آج ہے خود فطرت سیلاب لئے