مجھے بخشی خدا نے کون روکے گا زباں میری

مجھے بخشی خدا نے کون روکے گا زباں میری
تمہیں ہر حال میں سننی پڑے گی داستاں میری


کبھی تو شاہراہ زندگی تھی کہکشاں میری
مگر اب کارواں میرا نہ گرد کارواں میری


ابھی لوگوں کے دل میں خار کی صورت کھٹکتا ہوں
ابھی تک یاد ہے اہل چمن کو داستاں میری


مرے گزرے ہوئے تیور ابھی بھولی نہیں دنیا
ابھی بکھری ہوئی ہیں ہر طرف پرچھائیاں میری


مری آنکھوں میں آنسو ہیں نہ ہونٹوں پہ تبسم ہے
سمجھ میں کیا کسی کے آئے گی طرز فغاں میری


مری فطرت کو کیا سمجھیں گے یہ خواب گراں والے
سویرے کے ستارے کی چمک ہے رازداں میری


تری راہ طلب میں زخم سب سینے پر کھائے ہیں
بہار گلستاں میری حیات جاوداں میری