ترا جلوہ نہایت دل نشیں ہے

ترا جلوہ نہایت دل نشیں ہے
محبت لیکن اس سے بھی حسیں ہے


جنوں کی کوئی منزل ہی نہیں ہے
یہاں ہر گام گام اولیں ہے


سنا ہے یوں بھی اکثر ذکر ان کا
کہ جیسے کچھ تعلق ہی نہیں ہے


مسیحا بن کے جو نکلے تھے گھر سے
لہو میں تر انہیں کی آستیں ہے


میں راہ عشق کا تنہا مسافر
کسے آواز دوں کوئی نہیں ہے


شمیمؔ اس کو کہیں دیکھا ہے تم نے
سنا ہے وہ رگ جاں سے قریں ہے