طلسماتی فضا تخت سلیماں پر لئے جانا

طلسماتی فضا تخت سلیماں پر لئے جانا
مرے گھر میں اترتی شام کا منظر لئے جانا


وہ اسباب شکست و فتح خود ہی جان جائے گا
علم جب ہاتھ سے چھوٹے تو میرا سر لئے جانا


گرج کے ساتھ بجلی بھی چمکتی ہے پہاڑوں میں
مسافر ہے کہ طوفانی ہوا کو گھر لئے جانا


کھلے جاتے ہیں جیسے دل کے سارے بند دروازے
اب ان قدموں کی آہٹ کیا سماعت پر لئے جانا


وہاں سنتے نہیں ہیں دیکھتے ہیں زخم پیشانی
اگر جانا تو آئینہ پس جوہر لئے جانا


گلی کی خاک مٹھی میں لئے ہیں چاہنے والے
زبیرؔ اس کیمیا کو تم بھی چٹکی بھر لئے جانا