تھی تو یہ ایک بات ہی پر سنگ میل تھی (ردیف .. ا)

تھی تو یہ ایک بات ہی پر سنگ میل تھی
کھونے کا خوف اسے بھی ہراساں کیے رہا


بادل بھرا بھرایا نہ برسا تو رنج کیا
اس دھوپ کے سفر کو تو آساں کیے رہا


یہ ایک شے الگ سے رگ جاں پہ بار تھی
اک لمحۂ فراق پریشاں کیے رہا


کیا موڑ تھا کہ ضبط کا یارا نہیں رہا
حالانکہ عمر بھر دل ناداں کیے رہا


اس غم کے قرض دار ہیں تیرہ شبوں میں بھی
رد وفا کا داغ فروزاں کیے رہا


کب آپ جانتے ہیں کہ اک درد مستقل
پیماں کی شام شام غریباں کیے رہا