دل اب اس شہر میں جانے کو مچلتا بھی نہیں (ردیف .. ا)
دل اب اس شہر میں جانے کو مچلتا بھی نہیں
کیا ضروری ہے ضرورت سے الگ ہو جانا
عین ممکن ہے سمجھ تم کو نہ آؤں اس سال
تم یہی کرنا کہ عجلت سے الگ ہو جانا
یہ کہیں چھین نہ لے صبر کی دولت تم سے
دل دھواں کرتی قیامت سے الگ ہو جانا
وہ تمہیں بھول کے پاگل بھی تو ہو سکتا ہے
دیکھ کر وقت سہولت سے الگ ہو جانا
میری تقدیر میں بس ایک ہی دکھ اترا ہے
دل کا اس یار کی سنگت سے الگ ہو جانا
تیرا غم ہی تو اڑائے لیے پھرتا ہے مجھے
چاہے کون ایسی اذیت سے الگ ہو جانا
ادھ کھلے پھول سے رکھنا نہ کبھی ربط کوئی
ادھ بجھے رنگ کی حالت سے الگ ہو جانا
ہم تو جاں ہار چلے ہیں پہ تم اے نکہت گل
چشم قاتل کی مشیت سے الگ ہو جانا