ادھوری ناشنیدہ داستاں ہوں
ادھوری ناشنیدہ داستاں ہوں
کہ شاید میں سماعت پر گراں ہوں
خیالوں میں بھی کچھ واضح نہیں ہے
یقیں کی گود میں پلتا گماں ہوں
لب اظہار چپ ہے میری خاطر
ابھی ہاں اور نہیں کے درمیاں ہوں
بلندی پر ہوا لے جا رہی ہے
چراغ جسم سے اٹھتا دھواں ہوں
کشش بازار کی روکے ہوئے ہے
ابھی میں اپنے گھر پہنچا کہاں ہوں
مجھے پاؤ گے دل کے پاس ہر دم
جہاں محسوس کر لو گے وہاں ہوں
مرے اندر ہے پوشیدہ قیامت
کمال ضبط کا اک امتحاں ہوں
ہوئے اعجازؔ بوڑھے تم مگر میں
خدا کے فضل سے اب تک جواں ہوں