تھک جاتا ہوں روز کے آنے جانے میں

تھک جاتا ہوں روز کے آنے جانے میں
میرا بستر لگوا دو میخانے میں


اس کے ہاتھ میں پھول ہے مت کہیے کہیے
اس کا ہاتھ ہے پھول کو پھول بنانے میں


میں کب سے موقع کی طاق میں ہوں اس کو
جان من کہہ دوں جانے انجانے میں


آنکھوں میں مت روک مجھے جانا ہے ادھر
یہ رستہ کھلتا ہے جس تہہ خانے میں


لاد نہ اس کے حسن کا اتنا بوجھ چراغؔ
آ جائے گی موچ غزل کے شانے میں