ٹھہرے پانی میں یہ مہتاب سا رکھا کیا ہے
ٹھہرے پانی میں یہ مہتاب سا رکھا کیا ہے
آپ کی آنکھ میں سیلاب سا رکھا کیا ہے
میری تقدیر میں تو کوئی بھی تعبیر نہیں
پھر یہ پلکوں پہ مری خواب سا رکھا کیا ہے
میں نے موتی کے ذخیرے تو بہت دیکھے ہیں
سامنے گوہر نایاب سا رکھا کیا ہے
اے مرے ڈوبتے سورج یہ بتا دے مجھ کو
تیرے دامن میں یہ مہتاب سا رکھا کیا ہے
میں نے دیکھی ہیں زمانے کی شرابیں نیلمؔ
تیرے شیشے میں یہ تیزاب سا رکھا کیا ہے