فٹ پاتھ پہ لیٹے ہیں خود اپنا بدن اوڑھے

فٹ پاتھ پہ لیٹے ہیں خود اپنا بدن اوڑھے
دھرتی کے بچھونے پر تاروں کا گگن اوڑھے


سایہ ہے نہ ہمسایہ منزل ہے نہ رستہ ہے
کانٹوں کی صدارت میں بیٹھے ہیں چمن اوڑھے


پھر ان کے تغافل سے آنکھوں میں نمی آئی
جیتے رہے ہم اب تک وعدوں کا کفن اوڑھے


حالات نے ہر شے کی تاثیر بدل ڈالی
سنتے ہیں کہ شبنم بھی گرتی ہے اگن اوڑھے


بادل ہے نہ بجلی ہے موسم نہ پرندے ہیں
روتی رہی ویرانی ہر سمت گہن اوڑھے


یادوں کے سفر سے جب لوٹی تو گماں گزرا
ہے میرا بدن جیسے صدیوں کی تھکن اوڑھے


اب اپنی تباہی کا کیا اس سے گلہ نیلمؔ
ہم کو ملا اندھیارا سورج کی کرن اوڑھے