سر کبھی گردن کبھی رخسار سہلاتا رہا

سر کبھی گردن کبھی رخسار سہلاتا رہا
ایک ہی جھونکا پلٹ کر بار بار آتا رہا


پھول پر بیٹھی ہوئی تتلی اچانک اڑ گئی
یہ خزانہ آخر اپنے ہاتھ سے جاتا رہا


شمع کی لو پر ہوا نے ہونٹ اپنے رکھ دئے
وجد میں آ کر دھواں تا دیر لہراتا رہا


اس تمنا میں کہ اہل دل مجھے تجھ سا کہیں
تیرا اک اک رنگ اک اک ڈھنگ اپناتا رہا


یوں کہ دوہری زندگی جینے کی عادت تھی مجھے
خود کو سینے سے لگاتا اور ٹھکراتا رہا


در دریچے بند اور آنکھیں کھلی رکھتے ہوئے
میں بھرے گھر میں گم اپنے آپ کو پاتا رہا