تیری محبت کا جو اک ہم کو سہارا مل گیا

تیری محبت کا جو اک ہم کو سہارا مل گیا
کشتی کو طوفاں میں کوئی جیسے کنارا مل گیا


گل ہو رہے ہیں بے ردا شاخ و شجر بھی سبز ہیں
گلشن کو اس کے آنے کا کوئی اشارہ مل گیا


کٹتے نہیں کٹتی ہیں راتیں دن بھی ڈوبا ڈوبا سا
کیا روز و شب یہ عشق کا ہم کو خسارہ مل گیا


پازیب میں کیسی کھنک اترا ہے کانوں میں شہد
کس کی یہ موسیقی ہے جس میں سر ہمارا مل گیا


اب ساتھ ہے کوئی نہیں اپنا بھی بن کے ہم سفر
اندھیرے تنہا چاند کو بھی جب ستارا مل گیا


راتیں دریچوں پہ بسر دہلیز پہ گزرے سحر
پیغام اس کی سمت سے کوئی دوبارہ مل گیا


تیرے بھی دل میں دیکھے ہیں ہم نے وہی درد اور غم
بس اک نظر سے تیری تیرا حال سارا مل گیا