لے کے پرچم مرے دامن کا کھڑے ہیں سارے
لے کے پرچم مرے دامن کا کھڑے ہیں سارے
آ کے پھر جسم پہ پتھر یہ پڑے ہیں سارے
دفن کرنے کی ہے انساں کو ضرورت اب کیا
شرم سے خود میں ہی خود سے تو گڑے ہیں سارے
زیست کی راہ کو اب اپنی بنانا تو مثال
ہیں پشیمان جو منزل پہ کھڑے ہیں سارے
کتنی پرواز بھرو اپنا نہ آغاز تجو
پر بکھر کے تو زمیں پر ہی پڑے ہیں سارے
بدلا ہے سارا جہاں بدلی نہ قوم عاشق
ان کو سمجھایئے کیا چکنے گھڑے ہیں سارے
عمر تو ساری گنوائی ہو نہ پائے انساں
پر خدا بننے کو پھر بھی تو اڑے ہیں سارے
خود کو کر ختم ہی کرتے ہیں وہ آغاز نیا
پتے وہ زرد جو شاخوں سے جھڑے ہیں سارے