تیری آنکھوں میں جو نشہ ہے پذیرائی کا

تیری آنکھوں میں جو نشہ ہے پذیرائی کا
رنگ بھر دے نہ مری زیست میں رسوائی کا


تجھ کو افسون محبت کی ضرورت کیا تھی
سحر کچھ کم تو نہیں تھا تری رعنائی کا


دل تو کیا چیز ہے جاں اس پہ تصدق کر دوں
یہ اگر عربدہ بھی ہو کسی ہرجائی کا


سوچتا ہوں دل بیتاب پہ کیا گزرے گی
سامنا ہو گیا گر پھر شب تنہائی کا


کہیں ایسا نہ ہو اس لطف و مدارات کے بعد
امتحاں ہو مرے پندار شکیبائی کا