تیرا ہر غم چرا لیا ہوتا
تیرا ہر غم چرا لیا ہوتا
کاش میرا پتا لیا ہوتا
زندگی دھوپ میں گزاری ہے
سائے میں ہی چھپا لیا ہوتا
کچھ تو کم ہوتے شب کے اندھیارے
دل کا دیپک جلا لیا ہوتا
یا سمندر کی تہ میں رکھ آتے
یا بھنور سے بچا لیا ہوتا
چل دئے میرے مسکرانے پر
پردۂ گل ہٹا لیا ہوتا
اشک بیناؔ بکھر ہی جاتا ہے
تو نے موتی بنا لیا ہوتا