آگے وہ جا بھی چکے لطف نظارہ بھی گیا

آگے وہ جا بھی چکے لطف نظارہ بھی گیا
چشم غفلت نہ کھلی صبح کا تارا بھی گیا


سرد مہری سے تری گرمئ الفت نہ رہی
دل میں اٹھتا تھا جو ہر دم وہ شرارہ بھی گیا


دل کے آئینے میں جب آپ کی صورت دیکھی
جس کو دھوکا میں سمجھتا تھا وہ دھوکا بھی گیا


عشق کو تاب تجلی نہیں کیا دیکھے گا
حسن یہ جان کے پردوں کو اٹھاتا بھی گیا


کس نے پائی ہے غم یار محبت سے نجات
عشق کا بوجھ کہیں سر سے اتارا بھی گیا


تیرے قدموں پہ جو لذت ہے وہ حاصل نہ ہوئی
یوں تو سجدے میں سر عجز جھکایا بھی گیا


دل کی آشفتہ مزاجی میں نہ کچھ فرق آیا
بارہا زلف پریشاں کو سنوارا بھی گیا


مانگنے سے کہیں یہ چیز ملا کرتی ہے
دل چرانے ہی کے قابل تھا چرایا بھی گیا


بے خودی تجھ پہ تصدق ہوں مرے ہوش و حواس
سامنے ہوتے ہوئے ان کو پکارا بھی گیا


ایک ہی چیز ہے پردے میں کہ بیرون حجاب
مجھ کو ظاہر بھی کیا خود کو چھپایا بھی گیا


پھر بھی آنکھیں رہیں محروم تماشائے جمال
ان کی تصویر کو شیشے میں اتارا بھی گیا


چھوڑ کر مجھ کو بھنور میں نہ خبر لی میری
اک سہارا تھا تمہارا وہ سہارا بھی گیا


پائے محبوب پہ سر رکھ کے ہوئے ہم واصلؔ
زندگی پائی نئی موت کا دھڑکا بھی گیا


دل کے آئینے میں نادیدہ تجلی دیکھی
خود نمائی کا بھلا ہو کہ وہ پردا بھی گیا