اسیر عشق
جس طرح پرندہ صحرا کا پانی کی تلاش میں پھرتا ہے
تو ڈھونڈھتا مجھ کو آئے گا کیوں مجھ سے نفرت کرتا ہے
کیا میری جدائی سے بھی تڑپ دل کی ترے تیز نہیں ہوتی
کیا بستیاں ارمانوں کی تری سینے میں پڑی ہیں یوں ہی سوتی
کیا میرے تصور سے بھی ترے جذبات میں جوش نہیں آتا
کیا خون کا اک قطرہ بھی ترا ایسا نہیں جو گرما جاتا
جو دل ہے ترا وہ میرا ہے اور میری اطاعت کرتا ہے
کمزور محبت ہے تیری پر دم وہ مرا ہی بھرتا ہے
میں تھامے ہوئے ہوں ہاتھوں سے پھندے میں مرے ہے وہ گویا
یا دام میں جیسے مرغ کوئی دانہ کی ہوس میں ہو آیا
اڑ جا ہے اجازت تجھ کو مری پر حلقۂ الفت سے باہر
تو اڑ نہیں سکتا اے پیارے گر گھوم بھی لے سب بحر و بر