ترغیب

مسلسل ہوا نے
سمیٹے ہیں پتوں کے بکھرے خزانے
سفیدے کی شاخوں سے تاروں کا جھرمٹ
محبت کے فتنے کا جادو جگانے
چلا آ رہا ہے
اندھیرے میں روشن
زمستاں کی راتوں کا یخ بستہ جوبن
بھڑکنے لگا ہے سلگتا تصور
تمنا کی ایذا پرستی کا دامن
بڑھا جا رہا ہے
الجھنے سے حاصل
ہوئی ہے نہ آسان ہوگی یہ مشکل
بلا خیز موجوں کے رستے میں تنہا
کھڑا ہے سمندر کا صد چاک ساحل
کوئی گا رہا ہے